وادی سندھ کی قدیم ترین تہذیب موہنجوداڑو

1980ء میں اسے عالمی ورثہ قرار دیا گیا، موہنجوداڑو کی یہ بستی چھ، سات محلوں پر مشتمل معلوم ہوتی ہے۔
کراچی: موہنجوداڑو وادی سندھ کی قدیم تہذیب کا ایک اہم مرکز تھا۔ یہ لاڑکانہ سے بیس کلو میٹر دور اور سکھر سے 80 کلو میٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہ ہڑپہ سے 686 میل دور ہے۔ یہ شہر 2600 قبل مسیح سے موجود تھا اور 1700 قبل مسیح میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر ختم ہو گیا۔ تاہم ماہرین کے خیال میں دریائے سندھ کے رخ کی تبدیلی، سیلاب، بیرونی حملہ یا زلزلہ اہم وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اسے قدیم مصر اور بین النہرین کی تہذیبوں کا ہم عصر سمجھا جاتا ہے۔ 1980ء میں اسے یونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ رائے بہادر دیارام سہنی نے ہڑپہ کے مقام پر قدیم تہذیب کے چند آثار دیکھے، اس کے ایک سال بعد اسی طرح کے آثار راکھال داس بینرجی کو موہنجو داڑر کی سرزمین سے دستیاب ہوئے۔ اس کی اطلاع ہندوستان کے محکمہ آثار قدیمہ کو ملی تو محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر جنرل سرجان مارشل نے دلچسپی کا اظہارکرتے ہوئے ان دونوں مقامات کی طرف توجہ دی اور محکمہ آثار قدیمہ کے تحت کھدائی کا کام شروع کر دیا گیا، لیکن یہ کھدائی کا کام مکمل نہ ہو سکا۔ جدید تحقیقات کی روشنی میں اب تک جو معلومات فراہم ہوئی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل مسیح وادی سندھ ایک عظیم تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھی اس وادی میں ایک مستحکم حکومت قائم تھی، یہ حکومت صدیوں سے مضبوط چلی آ رہی تھی تب موہنجو داڑو کو سندھ کے دارالخلافہ کی حیثیت حاصل تھی۔
شیخ نوید اسلم اپنی کتاب ”پاکستان کے آثار قدیمہ“ میں لکھتے ہیں کہ موہنجوداڑو کا مطلب ہے ”مرے ہوئے لوگوں کا ٹیلہ۔“ کسی بلند مقام پر کھڑے ہو کر اگر ساری بستی کا جائزہ لیا جائے تو موہنجوداڑو کی یہ بستی چھ سات محلوں پر مشتمل معلوم ہوتی ہے۔ ان محلوں کو وسیع سڑکیں یا راستے ایک دوسرے سے جدا کرتے ہیں۔ یہ شہر شکل و صورت میں جزائر برطانیہ کے قدیم شہروں سے ملتا جلتا ہے۔ جس طرح آئرلینڈ کا سمندر انگلینڈ سے آئرلینڈ کو جدا کرتا ہے بالکل اسی طرح دریائے سندھ کی طغیاتی نے شاید ”اسٹوپہ علاقے“ کو ایک دوسرے علاقے سے الگ کر دیا تھا اور اب یہ کھنڈرات دو بڑے حصوں میں منقسم ہیں۔ ایک بالائی شہر اورایک نشیبی شہر، بالائی شہر ایک بیضوی ٹیلے پر قدیم آبادی کے مغربی سرے پر واقع ہے۔ اس شہر میں اسٹوپہ، ایک حوض، درسگاہ اور بڑے ستونوں والا ہال خاص طور پر قابل ذکر ہیں جبکہ نشیبی شہر میں رہائشی مکانات، دکانیں، کھلی سڑکیں اور گلیاں ہیں۔ ان کھنڈرات میں موجودہ طرز تعمیر کی جھلک بھی بخوبی نظر آتی ہے۔ ان آثار اور کھنڈرات کو دیکھ کر ایک برطانوی سیاح نے کہا تھا کہ میں ان کھنڈرات میں کھڑا ہو کر یوں محسوس کر رہا ہوں جیسے لنکاشائر کے کھنڈرات میں کھڑا ہوں۔ کہنے کو تو موہنجوداڑو مردوں کا ٹیلہ ہے۔ بے جان اور خاموش شہر، لیکن جو لوگ آثار قدیمہ کی زبان سمجھتے ہیں یہ شہر ان سے باتیں کرتا ہے۔
موہنجوداڑو کا عمومی نقشہ ہڑپہ جیسا ہی ہے۔ شہر کی گلیوں کی ترتیب، مکانات اور اناج گھر سب ہڑپہ جیسے ہیں۔ البتہ یہاں کی سب سے منفرد اور سب سے نمایاں جگہ اشنان گھر ہے۔ بڑا غسل خانہ، بڑی باؤلی یا وسیع حمام، یہ ایک بڑی سی عمارت ہے۔ جس کے وسط میں ایک تالاب ہے۔ یہ تالاب 39 فٹ لمبا، 23فٹ چوڑا اور 8 فٹ گہرا تھا۔ شمال اور جنوب دونوں سمتوں سے اینٹوں کے زینے نیچے اترتے ہیں جن پر لکڑی کے تختے چپکا دیئے گئے تھے۔ تالاب کی چار دیواری کی بیرونی سمت لک یعنی تارکول کا لیپ کیا گیا تھا جو اس وقت بھی مختلف حالتوں میں دستیاب ہیں۔ اس کے ذریعے تالاب سے پانی کے رسنے کا سدباب کیا گیا تھا۔
ہزاروں سال پرانے تعمیر کردہ کنویں میں سے ملبہ نکالنے کے بعد اب بھی صاف اور ٹھنڈا پانی نکل رہا ہے۔ گندے پانی کے نکاس کا جو طریقہ موہنجوداڑو میں پایا گیا ہے اس دور میں روئے زمین پر کسی بھی تہذیب میں اس کا سلیقہ نہیں تھا۔ گلیوں اور سڑکوں کے دونوں اطراف گندے پانی کے نکاس کے لیے نالیاں تعمیر کی جاتی تھیں جنہیں پتھر کی سلوں سے ڈھانپ دیا جاتا تھا اور صفائی کے وقت انہیں اٹھا کر صفائی کی جاتی تھی۔ موہنجوداڑو کے لوگ ذراعت اور تجارت کے پیشہ کیساتھ وابستہ تھے۔ ان کے زرعی آلات کانسی کے بنے ہوئے تھے، شاید وہ لوگ لوہے کے استعمال سے واقف نہیں تھے۔ اس لیے یہ لوگ تانبہ اور کانسی جیسی دھاتیں کام میں لاتے تھے۔ یہ لوگ کشتیوں کے ذریعے دور دراز کے تجارتی سفر کرتے تھے اور اپنی مصنوعات کی فروخت کے ساتھ ضرورت زندگی کی اشیا دیگر علاقوں سے لاتے تھے۔ اس شہر کے بنے ہوئے مٹی کے برتن وادی دجلہ اور فرات میں بھی پائے گئے ہیں۔
موہنجوداڑو کے لوگ سنگ تراشی کے ماہر تھے۔ پتھروں پر نہایت خوبصورت اورنفیس تصویریں بنایا کرتے تھے۔ ان تصویروں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ فن مصوری پر بھی عبور رکھتے تھے۔ ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ برتن سازی کی ابتداء بھی قدیم سندھ سے ہوئی۔ یہاں کے لوگ تیروں سے جانوروں کا شکار کرتے تھے۔ وہ جانور پالتے بھی تھے۔ کھدائی کے دوران مختلف جانوروں کی ہڈیاں بھی برآمد ہوئی تھیں۔ اس دور کے والدین بچوں کے کھیل کود میں دلچسپی لیتے تھے۔ یہاں کافی مقدار میں بچوں کے کھلونے برآمد ہوئے ہیں جن پر بندر، کتے، بلی اور طوطے وغیرہ کی تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ اس شہر کی کھدائی سے شطرنج کے مہرے بھی برآمد ہوئے جو موجودہ شطرنج کے مہروں سے خاصی مشابہت رکھتے تھے۔ اس دور کی عورتیں بناؤ سنگھار کی بھی دلدادہ تھیں، اور سونے چاندی اور ہیرے جواہرات کے زیورات پہنتی تھیں۔ ہاتھوں میں کنگن اور چوڑیاں، گلے میں ہار، انگلیوں میں انگوٹھیاں اور پاؤں میں جھانجھریں پہنی جاتی تھیں۔ یہاں سے جو سرمے دانیاں برآمد ہوئی ہیں وہ آج کی سرمے دانیوں سے ملتی جلتی ہیں۔