پاکستان اور شراب نوشی کے قوانین

آج نا چیز جس عنوان پر بات کرے گا وہ ہے پاکستان اور شراب نوشی کے قوانین
جب ہم شراب نوشی کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے خیال ہمارے دل و دماغ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام میں شراب نوشی حرام ہے۔ جب یہ خیال آتا ہے تو اس کے ساتھ ایک سوال بھی ہمارے ذہن میں آتا ہے کیوں حرام ہے؟ اسلام آنے سے پہلے حلال تھی اور حتیٰ کہ اسلام آنے کے کچھ عرصے بعد تک بھی حلال تھی تو پھر اسے حرام کیوں قرار دیا گیا۔؟ شراب کو حرام اس لیے قرار دیا گیا کیونکہ یہ پینے کے بعد انسان اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے اور شراب پینے کے بعد انسان اپنی ماں بہن اور بیوی کا فرق بھول جاتا ہے۔ شراب حرام ہونے سے پہلے مسلمان شراب کی حالت میں مسجد میں نماز ادا کرنے بھی آجاتے تھے۔ جیسے ہی اسلام آیا اگر پہلے ہی دن اس چیز سے منع کر دیا جاتا تو کوئی بھی اسلام قبول نہ کرتا۔ جب ان لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تو اس کے ساتھ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان لوگوں کی تربیت کرنا شروع کر دی اور جب آپ کو اس بات کا ادراک ہو گیا کہ اب مسلمانوں کو کسی بھی چیز سے منع کر دیا جائے تو وہ لوگ اس چیز کی طرف مڑ کر نہیں دیکھیں گے تو اس کے ساتھ ہی وحی نازل ہو گئی کہ آج سے شراب حرام ہے اور جب اس چیز کا اعلان کیا گیا تو مکہ کی گلیوں میں شراب کا سیلاب آ گیا کیونکہ تمام لوگوں نے اپنے گھروں سے شراب کے مٹکے نکال کر گلیوں میں انڈیل دیے تھے۔ یہ تو تھا جواب شراب نوشی کیوں حرام ہے۔
اب ہم اپنے وطن عزیز پاکستان کی بات کرتے ہیں اور شراب نوشی کے حوالے سے قوانین کی بات کرتے ہیں۔ پاکستان میں 12 ربیع الاول ، 1399 ہجری ، 10 فروری 1989ء کو حدود کے قوانین کو نافذ کیا گیا۔ حدود قوانین کو نافذ کرنے سے پہلے بھی شراب نوشی کو ممنوع قرار دینے کے حوالے سے قانون موجود تھے لیکن اتنے سخت نہیں تھے۔
دفعہ 3۔
حدود قوانین (Prohibition of Manufacturing etc. Of Intoxicants)
اس دفعہ میں بہت ہی وضاحت کے ساتھ لکھا گیا ہے کہ جو بھی شخص نشہ آور ادویات/چیز کی ملک میں درآمد یا برآمد کرے گا یا پھر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائے گا یا نشہ آور مادہ بناتے ہوئے یا بیچتے ہوئے پکڑا گیا تو اسے عدالت اپنی مرضی سے سزا سنائی گی جو کہ 5 سال قید تک ہو سکتی ہے اور ساتھ ہی تیس کوڑے مارے جائیں گے اور ساتھ جرمانہ بھی کیا جائے گا۔
دفعہ ۷۔
شراب پینے کی سزا یا تو حد ہوگی یا پھر وہ سزا جو عدالت کو صحیح لگے گی۔
دفعہ ۸: (Drinking Liable to Hadd)
اس دفعہ میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی بھی بالغ شخص جو مسلمان ہیں وہ الکحول (شراب) پیتا ہے تو اس شخص پر حد نافذ ہوگی اور اسے 80 کوڑے مارے جائیں گے۔
دفعہ ۱۱:
(Drinking Liable to Tazir)
اس دفعہ میں بتایا گیا ہے کہ
۱) اگر کوئی شخص جو مسلمان ہے اور شراب پیتا ہے لیکن اس پر حد نافذ نہیں ہوتی تو اسے تعزیری سزا دی جائے گی۔
۲) اگر کوئی غیر مسلم شراب پیتے ہوئے پکڑا جاتا ہے ان دنوں کے علاوہ جس میں انھیں مذہبی تہوار کے طور پر شراب پینا جائز ہے تو اسے بھی تعزیری سزا دی جائے گی۔
۳) اگر کوئی غیر مسلم شخص کسی پبلک والی جگہ پر شراب پیتے ہوئے پکڑا گیا تو اس کو بھی تعزیری سزا دی جائے گی
جو کہ تین سال تک قید ہے یا پھر تیس کوڑے مارے جائیں گے یا پھر دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔
ان قوانین کو پڑھنے کے بعد تو ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی شخص پاکستان میں شراب نوشی نہیں کرے گا لیکن بہت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ قوانین صرف نام کی حد تک رہ گئے ہیں۔ ان پر عمل درآمد کروانے کے لیے کوئی موجود نہیں ہے، اور شراب کا دھندہ سر عام کیا جارہا ہے اور پولیس کو اس چیز کی خبر ہونے کے باوجود بھی وہ اس پر کوئی رد عمل نہیں کرتی۔ یہ ملک پاکستان جو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم ہوا تھا کہ جہاں اسلام کا بول بالا ہو گا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس ملک کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ یہاں پارٹی کا رواج عام ہوگیا ہے اور کھلے عام شراب نوشی کی جا رہی ہے۔ میری ایوان میں بیٹھے اپنے نمائندوں سے یہ درخواست ہے کہ خدارا اس چیز کو ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور غیر مسلم جن لوگوں کو پرمٹ(Permit) دیے گئے ہیں ان کے پرمٹ ختم کیے جائیں تاکہ اس گندگی سے ملک پاکستان کو بچایا جا سکے۔
یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے