“دھوکہ دہی اور فریب پاکستانی قانون کے تناظر میں”

آج نا چیز جس عنوان پر بات کرے گا وہ ہے دھوکہ دہی اور فریب پاکستانی قانون کے تناظر میں۔ وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کا بدلنا ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ جیسے جیسے وقت بدل رہا ہے اور زندگی تیزی کے ساتھ گزر رہی ہے یہ اپنے ساتھ انسانوں کے طور طریقے، رویے اور مزاج بدل رہا ہے۔ پہلے زمانے میں کسی کے ساتھ زیادتی کرنا، مثلاً کسی کو دھوکا دینا یا فریب میں الجھانا گناہ سمجھا جاتا تھا اور اس وجہ سے لوگوں کے ِدلوں میں ایک دوسرے کے لئے بہت قدر اور محبت ہوتی تھی، لیکن اس وقت نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ آج کے زمانے میں کسی کو دھوکہ دینا اور کسی کو جعل سازی میں پھنسانا عام بات ہوگئی ہے اور اس کی بنیاد پر ہزاروں معصوم لوگ اسکا شکار ہوتے ہیں۔ کسی غریب کے بیٹے کو باہر کے ملک بھیجنے کے لالچ دے کر اس سے پیسے ہتھیا لینا، حج اور عمرہ پیکجز کے نام پر ناسمجھ اور معصوم لوگوں کو لوٹنا، کسی سے گاڑی یا جائیداد لے کر اسے جعلی چیک دے کر لوٹنا۔ اب یہ تمام مسائل تو بہت عام ہو گئے ہیں، اب بات گاڑی، جائیداد اور عمرہ پیکج تک نہیں رہی، اب تو کروڑوں اور اربوں کی جعل سازی ہورہی ہے اور دھوکہ دے کر پاکستان کو لوٹا جا رہا ہے۔ وہ ملکِ پاکستان جس نے لوگوں کو غیر مسلموں کے شر سے اور غلامی کی زندگی سے نکال کر آزاد اور خود مختار بنایا اور انہیں ہر چیز کی آزادی دی لیکن یہ لوگ اس ملک کو دھوکہ اور فریب دینے سے باز نہ آئے۔
اب بات کرتے ہیں کہ کیا کوئی قانون موجود نہیں ہے جو ان لوگوں کو اس چیز سے روکے اور لوگ ایسا کام کرنے سے پہلے ہزار بار سوچیں۔ ملک یا ریاست کے قانون کو تو ایک طرف رکھتے ہیں، پہلے بات کرتے ہیں اسلام کی، مسلمان ہونے کی، ایمان کی۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں سب سے پہلا درس یہ دیا جاتا ہے کہ جھوٹ نہیں بولنا اور دھوکہ دینا اور فریب کرنا جھوٹ کی ہی قسم ہے۔ ہم مسلمان ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن کیا ہم اس کے تقاضے پورے کر رہے ہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا “مسلمان سب کچھ کرسکتا ہے لیکن جھوٹ نہیں بول سکتا”۔ اسلام ہمارا دین ہے اور ہم دین کے احکامات کو چھوڑ کر غیر کی باتوں میں الجھ چکے ہیں۔
اور اب بات کرتے ہیں پاکستانی قانون کی، وہ قانون جوکہ ہم نے دوسرے ممالک سے اپنایا ہے۔ ہمارے پاس قرآن پاک کی شکل میں آئین / قانون موجود ہے لیکن ہم نے اُسے نہیں اپنایا اور تَرک کر دیا اور اسی لئے آج ہم اس مشکل حالات سے دوچار ہیں۔
تعزیرات پاکستان کی دفعات
دفعہ 415. (Cheating)
اس دفعہ میں دھوکہ دہی کو بیان کیا گیا ہے کہ جب بھی کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو غلط ارادے سے بہلائے گا اور اس کے ساتھ فریب کرے گا کہ کوئی بھی جائیداد دینے کا کہہ کر اس سے دھوکہ کرے اور جس سے دوسرے شخص کو کوئی نقصان پہنچے تو یہ دھوکہ دہی کے زمرے میں آئے گا۔
دفعہ 416. (Cheating by Personation)
جب بھی کوئی شخص کسی کو بھی غلط پہچان بتا کر کوئی غلط کام یا دھوکہ کرے گا وہ بھی دھوکہ دہی میں شامل ہوگا۔
دفعہ 417. (Punishment of Cheating)
اس دفعہ میں بہت ہی صاف الفاظ میں بتا دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو دھوکہ دیتے ہوئے پکڑا گیا تو اسے ایک سال تک کی سزا ہو سکتی ہے یا پھر اس پر جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے یا دونوں سزائیں بھی ہو سکتی ہیں۔
دفعہ 418. (Cheating with Knowledge that wrong fulloss may
ensue to person
اس دفعہ میں بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بھی دوسرے شخص کو دھوکہ دے گا اور اُس دھوکے کی وجہ سے اگر اُس شخص کو کوئی نقصان ہوا تو پھر جس شخص نے دھوکہ دیا ہے اسے تین سال تک کی سزا یا پر جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتیں ہیں۔
دفعہ 419. (Punishment for Cheating by Personation)
اگر کوئی شخص اپنی غلط پہچان بتا کر کسی دوسرے شخص کو دھوکہ یا فریب دیتا ہے تو اس کے لئے سات سال تک کی سزا یا پھر جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتیں ہیں۔
دفعہ 420. (Cheating and Dishonestly inducing delivery of property)
اس دفعہ میں بہت ہی صاف الفاظ میں لکھا گیا ہے کہ اگر کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص کو کوئی چیز دینے کا وعدہ کرتا ہے اور پھر اس سے مُکر جاتا ہے یا پھر دھوکہ دیتا ہے تو پھر اس شخص کو سات سال تک کی سزا یا جرمانہ یا پھر دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔
یہ کچھ دفعات تھیں جوکہ پاکستان میں دھوکہ دہی اور فریب کے لئے استعمال ہوتی ہیں اور ان میں سے کسی بھی دفعہ کی سزا سات سال سے زیادہ نہیں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دفعات (Prohibitory Clause) میں نہیں آتی اور جس دفعہ کی سزا سات سال سے کم ہو اس میں مجرموں کو بَری کر دیا جاتا ہے اور لوگوں کو سزا نہ ہونا اس جرم کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ میں اپنے ارباب اختیار سے یہ التجا کرتا ہوں کہ خدارا ان مجرموں کی سزاؤں کو بڑھانے کے لئے قانون میں ترامیم کی جائیں اور پھر ان قوانین پر عمل بھی کروایا جائے تاکہ جرم بڑھنے کے بجائے کم ہو۔ اور جب لوگوں کے دلوں میں سزا کا خوف ہوگا تو لوگ ایسا کام کرنے سے اجتناب کریں گے۔