مُچھ ( مونچھ) نہیں تے کچھ نہیں

image

مختلف علاقوں کی مختلف روایات ہوتی ہیں، مگر مونچھ کا رواج تقریباً ہر معاشرے میں یکساں پایا جاتا ہے۔ مونچھ کوئی مردانگی کا ثبوت تو نہیں، مگر مرد کی شان و شوکت اور رعب کا مظہر ضرور ہے۔ ہمارے پاکستان میں تقریباً ہر علاقے میں مونچھ کو خاصی اہمیت حاصل ہے، سندھی، بلوچی، پٹھان اور پنجابی سب لوگ اپنے چہرے پر مونچھ کو سجائے، بڑے فخر سے اس کو تاؤ دیتے ہیں، تاہم اب مغرب زدہ نظام نے ہمارے رہن سہن اور پہناؤں کو بدل کر رکھ دیا ہے، موجودہ دور میں کلین شیو کا رواج عام ہے۔ مونچھ رکھنا ہمارے دین اسلام میں بھی جائز ہے، مگر کسی قاعدے قانون کے تحت رکھی جائے، مونچھوں کو بے لگام گھوڑے کی طرح چھوڑ دینا بھی جائز نہیں، حدیث مبارکہ کی رو سے زیادہ سے زیادہ چالیس دن کی حد مقرر کی گئی ہے، "حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مونچھیں ترشوانے اور ناخن لینے اور بغل اور زیرِ ناف کی صفائی کے سلسلہ میں ہمارے واسطے حد مقرر کر دی گئی ہے کہ 40 روز سے زیادہ نہ چھوڑیں." (صحیح مسلم) اسلام مونچھیں لمبی رکھنے سے منع نہیں کرتا مگر ان کو صاف رکھیں۔ مونچھوں سے  متعلق شرعی احکامات بھی آگے جاکر آپ کو بتاؤں گا فی الوقت تو ایک واقعہ آپ کے گوش گزار کئے دیتا ہوں۔

ایڈمیرل نندا جو 1970ء سے 1973ء تک بھارتی بحریہ کے سربراہ تھے، کہتے ہیں کہ "ایک دن میں چائے پی رہا تھا کہ ایک راجستھانی سیلر میرے قریب آیا اور بولا کہ داڑھی اور مونچھ رکھنے کی روایت سے مجھے بہت پریشانی ہوتی ہے۔ جب میں گھر جاتا ہوں، اگر میری مونچھ نہ ہو تو لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا تمہارے باپ کا انتقال ہوگیا ہے؟ راجستھان میں یہ روایت ہے کہ اگر کسی کا باپ مر جائے تو وہ مونچھ کٹواتا ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ وہ سوگ میں ہے۔ لہٰذا چھٹی سے دو مہینے پہلے مجھے داڑھی رکھنے کی اجازت لینی پڑتی ہے۔ لیکن جب تک میری داڑھی ٹھیک سے نہ بڑھ جائے مجھے جہاز سے اترنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ چھٹی کے پہلے دن میں اپنی داڑھی منڈواتا ہوں اور آخری دن مونچھ کیونکہ جہاز پر واپس آنے کے لیے دونوں کا ساتھ ہونا ضروری ہے۔ اس کے بعد 1971ء میں بھارتی بحریہ نے قانون میں ترمیم کرکے عملے کو داڑھی مونچھ ساتھ ساتھ یا الگ الگ رکھنے کی اجازت دیدی بشرطیکہ وہ صفائی سے رکھی جائیں۔

مغیرہ بن شعبہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ کے ساتھ میں بھی مہمان تھا، آپ کے پاس بھنے ہوئے پہلو کا گوشت لایا گیا، آپ نے چھری لے کر اسے کاٹنا شروع کیا اور میرے لئے بھی ایک ٹکڑا اس میں سے کاٹا، پھر بلال (رضی اللہ عنہ) آئے تاکہ آپ کو نماز کی اطلاع دیں تو آپ ﷺ نے چھری رکھ دی اور فرمایا کہ اسے کیا ہوا ہے؟ اس کے ہاتھ خاک آلود ہوں۔ اور اس (مغیرہ رضی اللہ عنہ) کی مونچھیں لمبی تھیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں مسواک رکھ کر تراش دوں؟ یا پھر فرمایا کہ انھیں مسواک پر رکھ کر تراش لو۔" (سنن ابی داود 188 مسند احمد 4/ 252، 255) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر مونچھ تھوڑی لمبی بھی رکھ لی جائیں تو جائز ہے، مونچھیں چھوٹی رکھنا سُنتِ مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور مونچھیں لمبی رکھنا سُنت حضرت عمر فاروق (رض) ہے۔ یاد رہے کہ علمائے کرام کا فیصلہ ہے کہ مونچھ کے بال اگر کھانے یا پینے کی اشیاء میں لگ جائیں تو شرعاً وہ کھانا مکروہ ہو گا نہ ہی حرام ہوگا، مگر مونچھ کے بالوں کو کھانے میں لگنے سے بچانا چاہیے۔ 

علماء کے مطابق مونچھیں لمبی رکھنا اور ان کو تاؤ دینا بھی شرعاً جائز ہے، کیونکہ خلیفۂ دوم حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مونچھیں لمبی تھیں اور آپ کو جب بھی کوئی اہم معاملہ نبھٹانا ہوتا تو آپ اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے، اسحاق بن عیسیٰ الطباع (ثقہ راوی) سے روایت ہے کہ میں نے (امام) مالک بن انس (رحمۃ اللہ) کو دیکھا، ان کی مونچھیں بھر پور اور زیادہ تھیں، ان کی دونوں مونچھوں کے باریک سرے تھے، پھر میں نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا کہ "مجھے زید بن اسلم نے عامر بن عبد اللہ بن زبیر سے حدیث بیان کی، انھوں نے عبد اللہ بن زبیر (رضی اللہ عنہ) سے کہا کہ کوئی اہم معاملہ ہوتا تو عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ) اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے اور منہ سے پھونکیں مارتے تھے، پس انھوں نے مجھے حدیث کے ساتھ فتویٰ دیا۔ (کتاب العلل و معرفۃ الرجال للامام احمد 2/ 1589، وسندہ صحیح، دوسرا نسخہ 1/ 261 ح 1507، نیز دیکھئے طبقات ابن سعد 3/ 326 وسندہ صحیح)