طلباء گردی

image

 

 

دی ویووز نیٹ ورک: طلباء کسی معاشرے کی ترقی و خوشحالی کی ضمانت ہوتے ہیں۔ طلباء سے نہ صرف والدین یا خاندان کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں بلکہ پوری قوم کو ان پر تکیہ ہوتا ہے کہ یہی ہیں وہ جن میں کچھ آگے چل کر ہماری قسمت کے فیصلے لکھیں گے یا ہماری زندگی کو آسان بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے۔ طلباء ہی کی بدولت دنیا بھر میں کئی سیاسی و سماجی انقلاب برپا ہوئے ہیں کیونکہ معاشی و معاشرتی باریکیوں کا جتنا طلباء گہرائی سے جائزہ لے سکتے ہیں اور کوئی نہیں لے سکتا۔ طلباء اپنے مسائل کے حل اور اپنی آراء کو ایوان میں بیٹھے اشخاص تک پہنچانے کیلئے منظم ہوتے ہیں یعنی طلباء تنظیموں کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔ طالب علموں کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور انہیں فہم و آگہی سے روشناس کروانے کیلئے یونینز کا پلیٹ فارم مہیا کیا جاتا ہے۔

یورپ سمیت دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں طلباء کے مسائل اجاگر کرنے، غیر نصابی سرگرمیوں میں ان کی شرکت کو یقینی بنانے اور ان کے ذہنی شعور میں اضافے میں طلباء تنظیمیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ طلباء یونینز کا مقصد جمہوری ضابطوں کے مطابق اجتماعی فیصلہ سازی اور رائے دہی میں ان کی تربیت کرنا ہوتی ہے، اس سے نہ صرف تعلیمی اداروں کے معاملات میں طلباء کا نقطۂ نظر پیش کیا جاتا ہے بلکہ یہ مستقبل میں سیاسی طور پر ایک باشعور شہری بننے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ دنیا میں سب سے پہلے 1815ء میں جینا یونیورسٹی کے جرمن طلباء نے "اربرشنشافن" نامی ایک یونین کی بنیاد رکھی جس کا مقصد قوم پرستی کے نظریات کو پروان چڑھانا تھا، تاہم 1819ء میں اس طلباء یونین کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ اسی طرح 1848ء میں پیرس سمیت ویانا اور برلن انقلاب کا غوغا بلند ہوا تو طلباء ہی کی بدولت اس تحریک نے عروج پایا، روس میں زار حکومت کے خلاف بھی اعلانِ بغاوت بلند کرنے کا سہرا طلباء ہی کے سر ہے۔

برصغیر کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو طلباء کا کردار خاصی اہمیت کا حامل ہے، 1905ء میں برصغیر کے طلباء نے بنگال کی تقسیم پر انگریز سرکار کے خلاف زبردست احتجاج کیا، 1920ء کی تحریکِ خلافت میں بھی طلباء کا ناقابلِ فراموش کردار رہا ہے۔ آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن جو 1936ء اور آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن جو 1937ء میں بنیں، تحریکِ آزادی میں سب سے بڑا حصہ ان تنظیموں کا ہے۔ تحریک آزادی ہند کے ہیرو بھی اسی دور کے سرگرم طلباء میں سے تھے جنہوں نے انگریزوں کو ناکوں چنے چبوائے مگر بدقسمتی سے طلباء تنظیموں کی جو شناخت پاکستان میں ہے دنیا بھر میں اس کے برعکس ملے گی، وطنِ عزیز میں سیاسی جماعتوں نے اپنے غنڈوں کے طور پر ان طلباء تنظیموں کی پرورش کر رکھی ہے۔ آج یہ یونینز قتل و غارتگری، منشیات فروشی اور غنڈہ گردی کے تمغے اپنے سینے پر سجائے بڑا فخر محسوس کرتی ہیں۔

مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق حالیہ 2 برسوں میں صرف گجرات شہر میں 7 بڑی طلباء تنظیموں کے ہاتھوں تقریباً 25 طلباء کی زندگیوں کے چراغ گل کر دیے گئے۔ ایس پی انویسٹیگیشن گجرات محمد ریاض اپنے ایک بیان میں ہوشربا انکشافات سامنے لے آئے، ان کا کہنا تھا کہ اگر اچانک طلباء کے بستوں کی تلاشی لی جائے تو ان میں صرف اسلحہ نہیں بلکہ منشیات اور شراب سمیت کئی چیزیں ملیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ کالجز صرف اپنی تشہیر کے پیچھے لگے ہیں کہ ہمارے بچے نے اتنے نمبر لئے، یہ پوزیشن حاصل کی ہے مگر اخلاقی اقدار کی پاسداری کا انہیں پتہ ہی نہیں، تعلیمی ادارے صرف اپنے کلاس رومز تک ذمے داری قبول کرتے ہیں، اس کے علاوہ کبھی وہ اپنے طلباء پر کڑی نگاہ نہیں رکھتے۔ یہ حالات صرف ایک شہر ہی کے نہیں بلکہ پورے پاکستان کے ہیں مگر کون اس کا جوابدہ ہوگا؟ والدین بھی اس سے بری الزمہ قرار نہیں دیے جا سکتے، اس معاشرتی ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کا کام سب کو مل کر کرنا ہوگا۔

کیا یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہے گا کہ طاقتور سیاسی جماعتوں کے یہ غنڈے دیگر شرفاء کی لائق اولادوں کی پڑھائی میں خلل ڈالتے رہیں گے یا کبھی ان کی طرف بھی توجہ دی جائے گی۔ حکومتیں جب اپنے مفادات کی حفاظت کیلئے کوئی قانون سازی کرتی ہیں تو کبھی پرواہ نہیں کرتیں کہ ایوان میں ممبرز کی تعداد بھی پوری ہے کہ نہیں، کبھی رات کے اندھیرے میں کوئی بل پیش کر دیا جاتا ہے، اس مسئلے پر کوئی پختہ قانون سازی کیوں نہیں کی گئی؟ ابھی تک کیوں آوارہ مزاج لوگوں کے ہاتھوں میں نسلِ نو کی قسمت کے ستارے ہیں؟ اگر اس پر کوئی اس طرح کا حکم جاری کر دیا جائے کہ اگر کوئی طلباء تنظیم کا رکن کسی منفی سرگرمی میں ملوث پایا گیا تو نہ صرف اس کو ملک میں بلیک لسٹ کر دیا جائے گا بلکہ اس کا نام ای سی ایل میں شامل کر دیا جائے گا تو پھر دیکھتے ہیں کیسے کوئی گینگسٹر بنتا ہے۔ یورپی یونین سمیت دیگر ممالک سے مل کر ایک عالمگیر قانون وضع کیا جائے کہ ایسے نوجوانوں کو کوئی دوسرا ملک اپنی زمین پر رہنے، کام یا کاروبار کرنے کی اجازت نہیں دے گا، تعلیمی اداروں سے حکومت ہر ماہ رپورٹ طلب کرکے ایسے طلباء کو امتحان میں بیٹھنے کی اجازت ہی نہ دے تاکہ وہ نشانِ عبرت بن کر رہ جائیں۔ اگر اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل نہ کیا گیا تو یہ آگ کل ہر کسی کو جلا دے گی، میرے ملک کے اعلیٰ حکام! سنو آپ کے بچے تو شاید محفوظ ہیں مگر جن کی جوان اولاد مر رہی ہے، ان کے درد کا مداوا کون کرے گا۔ بقول شاعر 

جو تار سے نکلی ہے دھن وہ سب نے سنی ہے

جو ساز پہ گزری ہے وہ کس دل کو پتہ ہے