مسلم اُمہ کی زبوں حالی اور اس کا سدِباب

دی ویووز نیٹ ورک: تاریخ کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جب مسلمانوں کی معاشی ترقی اور علمی ترقی اپنے کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ اس وقت اسلامی تہذیب اور اسلامی تہذیب کے سائنس دان میڈیسن، میتھمیٹکس، فزکس، باٹنی، اور آسٹرالوجی میں اپنے کمال دکھا رہے تھے۔ اپنے اس علم اور جدید ٹیکنیکس کی بنیاد پر مسلمانوں نے دنیا پر حکومت کی لیکن آج 21ویں صدی میں وہی مسلمان دہشت گردی، سول وارز اور فرقہ واریت جیسی موزی امراض سے نمٹ رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ جو کہ ذخائر سے مالا مال زمین کا ایک ٹکڑا ہے، کی صورتحال اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے جہاں اندرونی خلفشاریں، کمزور سسٹم اور بیرونی مداخلت کی وجہ سے حالت بہت زیادہ خراب ہو چکی ہے۔ یہ ممالک آپس میں باہم دست و گریباں ہیں۔ یمن کی مثال اس بات کی دلیل ہے جہاں پہ سعودی عربیہ اور ایران اس ملک میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کیلئے اپنے اپنے گروپس کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ اسی طرح کی مثال ہمیں شام میں بھی ملتی ہے جہاں پہ ایران روس کی مدد سے اور سعودی عربیہ امریکہ کے ساتھ مل کر آپس میں مدِمقابل ہیں۔ دونوں ممالک اس قابل نہیں کہ اپنے ریجن کو مغرب کے اس گندے کھیل سے پاک کر سکیں۔
کئی طاقتور مسلم ممالک جیسا کہ سعودی عریبیہ اپنے کارناموں کو چھپانے کیلئے دوسرے مسلم ممالک کے خلاف اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں یہاں پر ایک مشہور صحافی جمال احمد خشوگی کا قتل ایک مثال کے طور پر ہمارے سامنے موجود ہے۔ مسلمانوں کی اس مایوس کن سیاسی تصویر کے علاؤہ معاشی حالت بھی قابل رحم ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق مسلم ممالک کے پاس دنیا کے تیل کا ٪70، قدرتی ربڑ کا ٪70، پٹ سن کا 40 فیصد پام آئل کا 50 فیصد کے ذخائر موجود ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ مسلم ممالک پوری دنیا کے ذخائر کے نصف کے مالک ہیں۔ اس کے باوجود معاشی اشاریے ان ممالک کی معاشی زبوں حالی کا رونا روتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق او آئی سی ممبران کا ٹوٹل جی ڈی پی 7.8 ٹرلین ڈالر ہے جبکہ صرف امریکہ کا جی ڈی پی 15.4 ٹرلین ڈالر ہے۔ او آئی سی ممبران کا ایوریج جی این پی پر کیپیٹا 550 ڈالر ہے جبکہ باقی دنیا کا 1900 ڈالر ہے۔ یہ معاشی اشاریے ہی اس بات کی دلیل ہیں کہ اگرچہ مسلم ممالک قدرتی ذخائر سے مالا مال ہیں تاہم ان زخائر اور ان سے ملنے والے پیسے کو صحیح سمت لگانے سے لگانے میں یہ ملک قاصر ہیں۔
یہاں پر اگر مسلم اُمہ کی سماجی زبوں حالی کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ نا انصافی ہوگی۔ کئی مثالیں یہاں پر موجود ہیں کہ جہاں پہ مسلم ممالک مغربی ممالک کے مفاد اور اختلافات کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں۔ عراق، شام، ایران یہاں تک کہ پاکستان کی مثال بھی ہمارے سامنے موجود ہے۔ امریکہ جہاں بھی اپنے مفاد کے خلاف چیزیں ہوتا ہوا دیکھتا ہے تو وہاں پر سول وار کی صورت میں خلل ڈالتا ہے۔ امریکہ بہادر کو پاکستان سے جب تک مفاد تھا تو پاکستان میں رہ کر اور پاکستان کی فضا کو استعمال کر کے وہ افغانستان میں اپنی جنگ لڑتا رہا لیکن جوں ہی اس کے مفاد یہاں سے ختم ہوئے تو وہ پاکستان میں چائنہ کی جانب سے شروع کیا گیا ایک بہت بڑا منصوبہ، سی پیک، کے خلاف ہو گیا جس کے پیچھے وجہ یہ تھی کہ اس منصوبے سے چائنہ کا ساؤتھ ایشیا میں اثر و رسوخ کا بڑھنا اس کے عالمی ٹھیکیداری کے خلاف ہے۔ اسی طرح کی اور بھی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ یہ چند مسائل ان تمام مسائل کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں جو اس وقت مسلم امہ کو درپیش ہیں جس کہ حل کی طرف عملی اقدامات لینا بہت ضروری ہے۔
سب سے پہلا اور ٹھوس قدم جو مسلم اُمہ کو لینا چاہیے وہ یہ ہے کہ اجتہاد کے ماحول کو فروغ دینا۔ بدقسمتی سے مسلمانوں نے اجتہاد کی پریکٹس چھوڑ دی ہے جس کے نتیجے میں اُمت سے عقلیت پسندی اور اعتدال پسندی کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ یہ پریکٹس مسلمانوں کے درمیان نہ صرف دوبارہ سے اتحاد اور اتفاق کو پیدا کر سکتی ہے بلکہ شدت پسندی اور فرقہ واریت کے خلاف لڑنے میں بھی معاون کردار ادا کر سکتی ہے۔ حال کی دنیا اور اس دنیا کے واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات مسلم امہ پر روز روشن کی طرح عیاں ہو جانی چاہیے کہ باہمی اتحاد اور اتفاق ہی ان مشکلات سے نکلنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اب جیسا کہ او آئی سی جس کے اجزائے ترکیبی اور اس کے بنانے کی وجہ تو باہمی اتحاد اور باہمی مفاد کو مفادات کو زیرِ بحث لانا تھا لیکن بدقسمتی سے اس پلیٹ فارم سے مسلم اُمہ کو کسی قسم کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہو رہا او آئی سی کو ایک ٹاک شو سے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
او آئی سی کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ اقوامِ متحدہ، جو کہ اپنے آپ کو انصاف کا ایک بہت بڑا ٹھیکیدار سمجھتا ہے، بالعموم مسلمانوں اور بالخصوص فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کو انصاف دلوانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ اس کی حالیہ مثال اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کے اس بیان سے لی جا سکتی ہے کہ جب اس نے کہا کہ عالمی طاقتوں اور عالمی اداروں کی پابندی یا مذمتی بیانات کے باوجود غزہ میں ہماری جنگ جاری رہے گی۔ اب یہاں سے یہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ مسلمانوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہوگا کیونکہ یہ ادارے مسلمانوں کو انصاف نہیں دلا سکتے۔ بات کو مختصر اور ختم کرتے ہوئے یہی گزارش ہوگی کہ اپنے آپ کو خوشحال اور ترقی یافتہ بنانے کیلئے مسلمانوں کو اپنے شاندار ماضی کو یاد بھی کرنا ہوگا اور اس پہ عمل بھی کرنا ہوگا جیسا کہ کچھ ممالک جیسا کہ ترکی، انڈونیشیا اور ملیشیا نے کیا ہے وگرنہ آپس کی یہ نفرت دشمنی اور تنگ نظری و تنگ دلی ہمیں بربادی کے گہرے اور اندھے کنویں کی جانب دھکیلتی رہے گی۔