افغان مہاجرین

دی ویووز نیٹ ورک: طاقت کے نشے میں دھت سوویت فوجیں اپنے الاؤ لشکر سمیت 1979ء وارد افغانستان ہوئیں، سپر پاور نے مزار شریف سے کابل اور کابل سے غزنی تک آتشیں اسلحے کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے انسانوں کو بھوننا شروع کر دیا۔ ایسے میں دیسی ساختہ اسلحہ کے حامل افغانوں نے کہیں کہیں رسمی سی مزاحمت کے بعد پاکستان میں پناہ لینا شروع کر دی۔ یوں متوسط اکانومی والا تیسری دنیا کا ملک نئے بوجھ تلے دبنا شروع ہوا۔ سوویت یونین کے گرم پانیوں تک رسائی کے منصوبے کو بعد ازاں ملکی سیکیورٹی فورسز نے عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر نیست و نابود کیا، تاہم اس وقت تک افغانستان کی معیشت بیٹھ چکی تھی، اس کا نظام زندگی تباہ ہو چکا تھا اور پاکستان میں پچاس لاکھ افغان پناہ حاصل کر چکے تھے۔ جنگ زدہ بے یارو مددگار افغان بھائیوں کو پاکستانی عوام اور حکومت نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور ان کی خوب آؤ بھگت کی، اکیسویں صدی عیسوی کے آغاز پر افغانستان کے حالات میں بہتری کے آثار پیدا ہوئے اور افغان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد اپنے ملک واپس چلی گئی، لیکن امریکی مہم نے ایک بار پھر افغانستان کو آگ کی بھٹی میں تبدیل کر دیا۔
اس بار جو افغان واپس گئے تھے ان سے کئی گناہ زیادہ پاکستان میں دوبارہ پناہ حاصل کرنے کیلئے واپس چلے آئے، یوں عالمی قرضوں پہ چلنی والی پاکستانی معیشت ایک بار پھر پٹڑی سے اترنے لگی اور ہم پرائی جنگ کی قیمت ادا کرنے لگے، ایسے میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا اور امریکی صدر ٹرمپ نے فوجی انخلاء کی بات چھیڑ کر، ایک ہاری ہوئی جنگ سے تھکی ہوئی فوج کو واپس بلانے کے عملی منصوبے کا آغاز کیا۔ کابل کی عنان حکومت ایک بار پھر طالبان کے پاس چلی آئی، اب کی بار افغان پناہ گزینوں نے افغانستان واپسی کیلئے کوئی خاص دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ بنظر عمیق اگر مشاہدہ کیا جائے تو اس کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہیں، افغانستان کے باسیوں کیلئے سب سے بڑی مشکل بے یقینی کی کیفیت ہے، وہ اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کو لے کے فکر مند ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ خطہ ہمیشہ سے جنگ کی آگ میں دھکتا چلا آیا ہے، دس بیس سال بعد کوئی اور قوم توپ ٹینک کے ساتھ چڑھ دوڑے گی اور ہم پھر سے در بدر ہونے پہ مجبور ہوں گے۔ پناہ گزینوں کی واپس جانے کیلئے عدم دلچسپی کی دوسری بڑی وجہ مقامی کمیونٹی کے ساتھ رشتہ داریاں ہیں، چار دہائیوں پہ محیط سکونت اور دو نسلوں کے جوان ہونے میں جو سماجی روابط قائم ہو چکے ہیں، نئی نسل اب پاکستان کو ہی اپنا وطن سمجھتی ہے۔
تیسری سب سے بڑی وجہ کاروباری معاملات ہیں، افغانوں نے بڑی تعداد میں پاکستان میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے، وہ بڑے بڑے کاروباری مراکز، فیکٹریوں اور درآمدات و برآمدات کے پروپرائیٹرز ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ریاست پاکستان اور عوام پاکستان کبھی بھی اپنے افغان بھائیوں کی میزبانی سے پیچھے نہیں ہٹی ہے، ابھی بھی تقریباً ساڑھے چار دہائیوں کے بعد اگر انہیں واپس افغانستان جانے کیلئے کہا جا رہا ہے تو بڑا باعزت طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ کابل کے حالات اب بہت پرسکون ہو چکے ہیں، زندگی کی بہاریں لوٹ رہی ہیں، اب وقت ہے افغان مہاجرین واپس اپنے ملک جائیں اور افغانستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں، ریاست پاکستان بیرونی قرضوں کی دلدل میں پہلے سے ہی پھنسی ہوئی ہے۔ پاکستانی معیشت اس قابل نہیں کہ وہ مزید بوجھ برداشت کر سکے، لہذٰا افغان بھائیوں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اپنے علاقوں کو واپس جائیں اور اپنے گھروں کو دوبارہ آباد کریں۔ ریاست پاکستان افغان بھائیوں کو افغانستان واپس بھیجنے کیلئے پابند کر رہی ہے اس کی دوسری بڑی وجہ ملک میں جاری دہشت گردی بھی ہے۔
پاک افغان بارڈر پہ امیگریشن کا نظام فعال نہ ہونے اور افغان پناہ گزینوں کے بھیس میں چھپے دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا بھی اسی منصوبے کا حصہ ہے۔ پاکستان میں ہونیوالی دہشت گرد کارروائیوں میں 90 فیصد سے زائد کاروائیاں افغانستان سے کنٹرول کی گئی ہیں، لہذٰا ملکی سالمیت و تحفظ کیلئے افغان پناہ گزینوں کا اپنے ملک واپس جانا ضروری ہے، تاکہ افغان بھائیوں کے روپ میں چھپی کالی بھیڑوں کو بے نقاب کیا جا سکے۔ بارڈر پر امیگریشن سسٹم کی عدم فعالیت کی وجہ سے اسمگلنگ اور غیر قانونی اسلحے کی فراوانی بھی ملکی معیشت اور سیکیورٹی کیلئے بڑا خطرہ تصور کی جاتی ہے، افغان بھائیوں کی اپنی ملک واپسی پر اس مسئلہ سے نپٹنا بھی کسی حد تک آسان ہو جائے گا۔ جلدی میں اپنا ملک چھوڑنے والے افغانیوں کے پاس پاکستان آمد پہ کچھ نہ تھا، لہذٰا پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے کئی لوگوں نے مار دھاڑ اور چوک چوراہوں پر بھیک مانگنا شروع کر دی۔ بے یارو مددگار افغانوں کے بڑے سیلاب نے سماجی اور معاشرتی طور پر بھی ملک پاکستان کی بنیادوں کو ہلا کے رکھ دیا، اس بڑے دباؤ کی وجہ سے پاکستانی غربت کا زیادہ شکار ہوئے۔
ان سب مسائل کے باوجود ریاست پاکستان ویزا حاصل کرنے والے افغانوں کو خوش آمدید کہنے کیلئے تیار ہے، افغان بھائیوں کیلئے پاکستان کے راستے ہمیشہ کھلے رہیں گے، تاہم انہیں پاکستان کے قانون کا احترام کرتے ہوئے ویزا حاصل کرنا ہوگا۔ افغان مہاجرین کو رجسٹریشن کروانا ہو گی۔ ہر اہم موقع پر پاکستان دشمنی کرنے والوں کے خلاف ایکشن لینا ہوگا، پاکستان اپنے برادر اسلامی ملک افغانستان کا احترام کرتا ہے اور برادرانہ اور خوشحال تعلقات کا خواہاں ہے، لیکن دنیا کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان پرامن، خودمختار ملک ہے اس کی سلامتی پر کسی قسم کی کوئی جارحیت برداشت نہیں کی جائے گی۔ پاکستان اور پاکستانیوں کی حفاظت سب سے پہلے ہے، یہی وجہ ہے کہ ریاست پاکستان افغان بھائیوں کی اپنی ملک واپسی کیلئے ملک گیر آپریشن کر رہی ہے۔ پاکستان ہمیشہ افغان بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے اور کھڑا رہے گا۔ ہم بطور مسلم ملک اپنے ہمسایہ ملک سے پاکستان کے قوانین کے احترام کی توقع کے ساتھ اچھے تعلقات کیلئے پرامید بھی ہیں۔