بے اثر دعائیں

image

دی ویووز نیٹ ورک: رمضان المبارک کا سارا مہینہ ہی رحمتوں اور برکتوں کا پیکج ہے۔ مگر اس میں کچھ مخصوص دن بھی جیسے کہ سترہ رمضان المبارک کو یومِ بدر منایا جاتا ہے، اس دن ہم غزوہِ بدر میں شریک مجاہدین اور اس میں جامِ شہادت نوش فرمانے والوں کیلئے خصوصی دعائیں مانگتے ہیں یا پھر زیادہ سے زیادہ اس سے منصوب واقعات کو سن سنا کر واہ واہ اینٹھتے ہیں، مگر بدر کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ جب 1000 کے مقابلے میں 313 میدانِ جنگ میں اُترے۔ تو غیبی مدد جنگ بدر میں آئی اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح سے ہم کنار کیا۔ اسی طرح غیبی مدد جنگِ خندق میں آئی جب اللہ تعالیٰ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹ پر 2 پتھر باندھے اور خود خندق کھو دی اور میدانِ جنگ میں اُترے۔

مگر اس کے برعکس بے شمار دعاؤں کے باوجود غیبی مدد نہ اسپین میں سقوطِ غرناطہ کے وقت آئی، نہ ہلاکو خاں کے ہاتھوں سقوط بغداد کے وقت آئی، نہ خلافتِ عثمانیہ کو بچانے کیلئے آئی، نہ اسرائیل کا قیام روکنے کیلئے آئی، نہ بابری مسجد ڈھانے  کے وقت آئی، نہ عراق اور شام کے وقت آئی، نہ میانمار کے وقت آئی، نہ گجرات کے وقت آئی، نہ کشمیر کیلئے آئی اور نا سقوطِ ڈھاکہ پاکستان کیلئے آئی؟ پھر بھی ہم  گھروں اور مسجدوں میں بیٹھ کر غیبی مدد کی صدا کیوں بلند کرتے ہیں؟ آخر کیوں؟ دنیا کا قیمتی لباس پہن کر، مال و زر جمع کر کے، لگژری ایئرکنڈیشنڈ گاڑیوں میں بیٹھ کر، لوگوں کی واہ واہ کی ہنکار کی خواہشات لئے مسجدوں کے ممبروں پر بیٹھ کر بددعائیں کر کے غیبی مدد کے منتظر یہ سادہ لوح عوام کیوں نہیں سمجھتی کہ سورج کو پیٹھ دکھا کر ساری زندگی سایہ نہیں پکڑا جا سکتا۔

آج کا مسلمان جہاد فی سبیل اللّٰہ اور جذبہ شہادت سے خود بھی دُور رہ کر اور اپنے پیاروں کو بھی دُور رکھ کر مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و جبر اور مصائب و مشکلات دیکھ کر اللّٰہ دشمن کو غرق کر دے، اللّٰہ دشمن کو تباہ و برباد کر دے، اللّٰہ مظلوموں کی مدد فرما، یا اللّٰہ دشمنوں کو ہدایت عطا فرما دے اور اگر اُن کے نصیب میں ہدایت نہیں تو انہیں غرق کر دے، جیسی بد دعاؤں پر اکتفاء کر کے سکوت اختیار کر لینے اور سکون سے نوالہ حلق سے نیچے اُتار کر پیٹ بھر بھر کر گہری نیند سوتے ہوئے غیبی مدد کے خواب دیکھنے میں مشغول ہے۔ یعنی سب کچھ اللّٰہ تعالیٰ جل جلالہ کے ذمہ  لگا کر اور خود کنارہ کشی اختیار کر کے غیبی مدد کے منتظر ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ جل جلالہ کی زمین پر اللہ تعالیٰ اور اُس کے محبوب صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے نظام کے نفاذ کی جدوجہد کے بجائے صرف  نعت خوانی، محفلِ میلاد یا تسبیح کے دانوں کو دس لاکھ بیس لاکھ گھما کر حق کے غلبے کی خواہش لئے پھرتے ہیں۔

سُنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمیں بتاتی ہے کہ پہلے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے میدانِ جنگ سجایا اور بعد میں اللّٰہ تعالیٰ کی غیبی مدد کیلئے ہاتھ بلند فرمائے، جبکہ آج کا جہاد صرف بد دعا ہے۔ نہ دُعا سے پہلے اور نہ دعا کے بعد کوئی عمل کرتے ہے اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کی مدد جنگ بدر میں بھی تب کی تھی جب اللّٰہ تعالٰی کے حبیب صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مدد کیلئے زمین پر اس کے اسباب پیدا کیے تھے پھر اللّٰہ تعالیٰ کی مدد آئی تھی۔ آج کا مسلمان اسباب پیدا کرے پھر دیکھیے اللّٰہ تعالیٰ کیسے مدد نہیں کرتا، امت کو یہ بات سمجھ لینی چاھیے کہ دعائیں تب قبول ہوتی ہیں جب ان میں درد اور خلوص ہو، ورنہ تو ہر بھیک مانگنے والا راہ چلتے آدمی کو بادشاہ بنا کر رخصت کرتا ہے۔ احادیث میں واضح طور پر مسلم کمیونٹی کو ایک جسم کی مانند بیان کیا گیا ہے مگر کیا وجہ ہے کہ اس جسم کے دل و دماغ پر وار کئے جاتے ہیں اور جسم درد و الم کو محسوس تک نہیں کرتا؟ 

ایک دور تک جب مسلمانوں کی نظر سعودی عرب پر ہوتی تھی کہ شاید وہ ہماری مدد کو آئیں، مگر پاکستان کے ایٹمی طاقت بن جانے پر دنیا کا ہر مجبور مسلمان پاکستان سے امید لگائے بیٹھا ہے مگر یہ ڈھلتے ہوئے دن کہ ساتھ ان کی آس بھی ڈھل جاتی ہے۔ سابقہ دورِ حکومت میں عمران خان نے عالمی سطح پر مسلمانوں کے حقوق کی آواز بلند کی تھی جس کا خمیازہ اس کو نہ صرف حکومت سے فارغ ہو کر بلکہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھ کر بھگتنا پڑ رہا ہے۔ آج ہمارے حکمران نہ صرف کشمیر کو بھول چکے ہیں بلکہ فلسطینیوں پر ظلمت کے ٹوٹتے پہاڑ بھی ان کو نظر نہیں آ رہے، آج عالمی سطح پر تو کیا مقامی سطح پر بھی نہتے فلسطینیوں ان کے معصوم بچوں کے قتل عام پر ایک آواز نہیں اٹھائی جا رہی، اس سستی کو صرف حکومتی سطح پر نہیں بلکہ عوامی سطح پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ اگر حکومت کا منشور مسلمان قوم کا دفاع نہیں تو عوام کب چاہ رہی ہے کہ فلسطینیوں کو اگر آزادی نہیں تو کم از کم امدادی کارروائیاں جاری کی جائیں۔ خدا کیلئے پاکستانیوں! اپنے دلوں میں وہ جذبۂ ایمانی دوبارہ زندہ کرو تاکہ فلاح پا سکیں۔