پاکستان میں پروبیشن اور پیرول کے قوانین

image

 

آج نا چیز جس عنوان پر بات کرے گا وہ ہےپاکستان میں پروبیشن اور پیرول کے قوانین

اپنے اس کالم کو شروع کرنے سے پہلے میں پروبیشن اور پیرول کے بارے میں آگاہ کرنا چاہوں گا۔ پروبیشن کا مطلب ہے جب کسی قیدی، جس کا ٹرائل ابھی مکمل نہیں ہوا ہوتا یا پھر دوسرے الفاظ میں کہا جائے کہ کسی بھی قیدی کو عدالت سے فیصلہ آنے سے پہلے رہا کر دیا جائے اُس کے اچھے کردار اور کوئی بھی criminal background نہ ہونے پر اور پیرول میں بھی قیدی کو رہا کر دیا جاتا ہے لیکن اُسے رہا اِس شرط پر کیا جاتا ہے کہ وہ آخری تمام سال اپنی قید کے سوشل کمیونٹی میں وقف کرے گا۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں جرائم ہو رہے ہیں اور نت نئے طریقوں سے جرائم ہو رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق جو کہ OSAC(Overseas Security Advisory Council) نے جاری کی کہ پاکستان میں ہر سال جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سیکورٹی ایجنسیز بری طرح ناکام ہو گئی ہیں جرائم کو کم کرنے میں۔ 

ہزاروں قیدی پاکستان کی جیلوں میں قید ہیں، جن میں سے 60% وہ قیدی ہیں جن کے کیس ریمانڈ ہو کر واپس ٹرائل کورٹ کو بھیجے گئے ہیں اور وہ لوگ اپنے کیس کے فیصلوں کا انتظار کر رہے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان کی جیلوں میں کم از کم 77,275 قیدی موجود ہیں۔ اگر اُن جیلوں کی کپیسٹی کی بات کی جائے تو 57,742 قیدیوں کے لیے جگہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کے 34% اضافی قیدیوں کو رکھا ہوا ہے اور اس وجہ سی قیدیوں کو بہت سے مسئلے درپیش آتے ہیں۔ اور جیل کے نظام کی اگر بات کی جائے تو قیدوں پر ظلم کیا جاتا ہے، اور اسی وجہ سے کرپشن بھی بہت بڑھ رہی ہے۔

ہماری ملک میں پروبیشن اور پیرول قوانین صحیح طرح نافذ العمل نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ قیدی جن کا کوئی Crimnal Background نہیں ہے اور کسی وجہ سے اُسے کیس میں ملوث کر دیا جاتا ہے تو وہ سالوں سال قید میں رہ کر اپنے فیصلے کا ہی انتظار کرتا رہتا ہے اور کئی اِسی آس میں مر جاتے ہیں کب واپس اپنے گھر والوں کا چہرہ دیکھیں گے۔ ایسے بھی قیدی موجود ہیں کہ جو جرم اُنہوں نے کیا ہوا ہوتا ہے اُس کی سزا مکمل ہو جاتی ہے لیکن پھر بھی وہ اپنے فیصلے کے آنے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص نے چوری کی ہے دفعہ 379 PPC کے تحت اُس جرم کی سزا 3 سال قید ہے۔ اور مجرم 4 سال سے جیل میں ہے اور ابھی بھی وہ عدالت کے فیصلے کا انتظار کر رہا ہے۔ پروبیشن اور پیرول قوانین کو نافذ العمل کرنا ہو گا تاکہ اس مسئلے سے جان چھوٹ سکے۔ 

اگر شریعت کی بات کریں  تو ہمارے سامنے اسلامی قوانین آتے ہیں۔ ان اسلامی قوانین کے مطابق جتنا جلدی ہو سکے مجرم کو سزا دی جائے۔ اسلامی قوانین میں قید خانوں کا کوئی concept نہیں ہے۔ صرف عارضی طور پر بند کرنے کے لیے ایک جیل ہوتی تھی۔ اگر ہم پروبیشن اور پیرول قوانین کو نافذ العمل لائے تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ سب سے پہلا مسئلہ جو حل ہو گا وہ ہے؛

سماجی:

سماجی طور پر دیکھا جائے تو جب کوئی بھی قیدی جیل میں بند ہوتا ہے تو اس وجہ سے اس کے گھر والے، اس کے خاندان والے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ان کا بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے اور وہ گھر جن میں واحد کمانے کا ذریعہ ہیں وہ شخص ہو جو کے جیل میں قید ہوتا ہے۔ اس طرح اس کے گھر والوں کا خیال رکھنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا اور ہم اپنے بچوں کو اس قیدی کے بچوں کے ساتھ میل ملاپ  نہیں کرنے دیتے، ہم اپنا تعلق اس بندے کے ساتھ ختم کر دیتے ہیں۔ اس وجہ سے سماجی طور پر بہت تناؤ آجاتا ہے اور یہ بہت سے قیدیوں اور ان کے گھر والوں کے لیے خود کشی کا باعث بنتا ہے۔ اسی طرح اگر پروبیشن اور پیرول قوانین کو نافذالعمل کیا جائے تو یہ ان کی قیدیوں کے ساتھ ایک اچھا برتاؤ ہوگا اور وہ پھر کبھی بھی ایسا جرم دوبارہ نہیں کریں گے۔

معاشی:

اگر معاشی طور پر دیکھا جائے تو پروبیشن اور پیرول قوانین کو ایکٹو کرنے کے لیے انہیں پوری طرح نافذالعمل کرنا ہوگا اور ہمارے ملک کا ایک بہت بڑا  بجٹ جیل خانوں کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔ اگر ہم 2019ء اور 2020ء کے بجٹ کو دیکھیں تو اس میں چار بلین روپے جیلوں کے لیے مختص کیے گئے۔ اگر ہم پروبیشن اور پیرول قوانین کو نافذالعمل لائے تو ہمارا ایک بہت بڑا معاشی مسئلہ حل ہوسکتا ہے اور جیلوں میں سے جب قیدیوں کو کم کر دیا جائے گا  تو اس سے جیلوں کو ملنے والی رقم بھی کم ہو جائے گی اور اس طرح ملک معاشی طور پر مستحکم ہوگا۔ ہمارے قوانیں بنانے والے اداروں کو چاہئیے کہ اِن قوانین کو نافذ کرنے کے لیے کوئی سٹرٹیجی بنائے۔