رشوت ستانی اور اسکی مذمت

کسی بھی معاشرے کو احسن طریقے سے چلانے کیلئے اسے مختلف برائیوں سے بچانا بہت ضروری ہے جس میں ایک رشوت ستانی ہے۔ قرآن اور حدیث میں رشوت خوروں کیلئے سخت عذاب سنایا گیا ہے۔ رشوت بد عنوانی کی ایک قسم ہے جس میں پیسے یا تحفہ دینے سے وصول کنندہ کا طرزِ عمل تبدیل ہوتا ہے۔ رشوت کو جُرم سمجھا جاتا ہے۔ قانونی لغتی معنوں میں کسی سرکاری افسر یا کسی عوامی یا قانونی امور کے مجاز کے عمل کو متاثر کرنے کے لئے کسی قدر کی شے کی پیشکش دینا، وصولی یا مانگنا رشوت کہلاتا ہے۔ رشوت کا مقصد وصول کنندہ کے اعمال پر اثر انداز ہونا ہوتا ہے۔ رشوت پیسہ، چیز، جائداد، استحقاق، معاوضہ، قدر کی شے، فائدہ یا محض کسی سرکاری یا عوامی اہلکار کے عمل یا ووٹ پر اثر انداز ہونے یا ترغیب دینے کا وعدہ یا عہد، کسی بھی شکل میں دی جا سکتی ہے۔
جب عدل و انصاف ختم ہو جائے اور لوگوں کو ان کے حقوق جائز طریقے سے نہ مل سکیں تو یقیناً رشوت کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ
الراشی والمرتشی کلاھما فی النار
”ترجمہ: رشوت دینے والا رشوت لینے والا دونوں آگ میں ہیں“
اس حدیث مبارکہ میں آپ ﷺ نے رشوت لینے اور دینے کو حرام قرار دیا ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے رشوت دینے والے اور لینے والوں دونوں کو جہنمی قرار دیا جب کہ دوسری حدیث میں آپ ﷺ نے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔ گویا دونوں اس گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔ لہذا جو بھی شخص اپنے کسی کام کروانے کیلئے رشوت دے گا وہ بھی حدیث کے مطابق جہنم میں جائے گا اور جو شخص کسی کا کوئی کام کرنے کیلئے کسی بھی قسم کی رشوت وصول کرے گا وہ بھی حدیث کی رو سے جہنم میں جائے گا۔
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جو گوشت سُحت سے پلا بڑھا تو آگ اس کی زیادہ حق دار ہے۔ عرض کی گئی :سُحت سے کیا مراد ہے؟ ارشاد فرمایا: فیصلہ کرنے میں رشوت لینا۔
اس طرح قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ،
لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠(۱۸۸)
اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پرجان بوجھ کر کھالو۔
اس آیت میں باطل طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا خواہ لوٹ کرہو یا چھین کر ،چوری سے یا جوئے سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے یا رشوت یا جھوٹی گواہی سے یہ سب ممنوع و حرام ہے۔
رشوت ستانی کے حوالے سے جو سخت وعید قرآن و سنت میں بتائی گئی ہیں، اس سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ یہ رشوت ستانی کتنی بڑی لعنت ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اس لعنت سے دور فرمائے اور اپنے کام حق حلال طریقے سے کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور حرام کام دور فرمائے۔ رشوت ایک ایسا جرم ہے جو معاشرے میں دیگر برائیوں کی بھی جڑ ہے اس لئے ہمیں چائیے کہ خود کو اس لعنت سے محفوظ رکھیں۔