صفائی کا مفہوم اور اہمیت

image

صفائی کے بارے میں سب کے خیالات اور نظریات تو یکساں ہیں۔ لیکن صفائی کے حقیقی مفہوم سے اکثر و بیشتر لوگ نا آشنا ہیں۔ جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ صفائی کی روح کی پہچان نہیں ہے۔ جب انسان کے اقدار درست اور متوازن نہیں ہوتے تو وہ ایک حد تک صاف تو نظر آتا ہے، لیکن در حقیقت وہ صاف نہیں ہوتا۔

اکثر و اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ اچھے لباس پہنے ہوئے لوگ، قیمتی گاڑیوں سے پان، سگریٹ یا شاپر سڑک پر پھینک دیتے ہیں۔ اس لئے اصل اقدار کی پہچان اور ان پر عمل ہی صفائی کی اہم منزل ہے۔ ان اقدار کے بغیر انسان اپنے آپکو اور اپنے گھر بار کو صاف رکھتا بھی ہے تو صرف اس لئے کہ اگر گندگی ہوئی لوگ کیا کہیں گے۔ عزیز و اقارب گندگی کی وجہ سے غلط رائے قاٸم کر لیں گے۔ سوسائٹی کے ڈر سے صفائی کرنے والے در حقیقت صفائی پسند نہیں ہوتے بلکہ ایسے لوگ ماحول کو گندہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ گندے لباس اور میلے جسم کے حامل افراد کو  نہ صرف حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ لوگ ان سے گِھن کھاتے ہیں اور ایسے لوگوں میں خود اعتمادی کی کمی بھی پائی جاتی ہے۔

دنیا کا تقریباً ہر مذہب صفائی کی اہمیت پر زور دیتا ہے لیکن ان میں عام طور پر صرف ظاہری صفائی پر ہی توجہ دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم خوراک میں پاکیزگی کی اہمیت کو نہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی عمل کرتے ہیں جبکہ دینِ اسلام صفائی اور پاکیزگی کی بنیاد پر ہی حلال و حرام میں تفریق کرتا ہے۔

صاف ستھرے انسان کو ہرکوئی پسند کرتا ہے جبکہ گندے شخص سے ہر کوئی دُور رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ صفائی کے لئے لباس کا نیا یا مہنگا ہونا شرط نہیں بلکہ صرف صاف ستھرا ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح جسم کی پاکیزگی کے لئے کسی مہنگے صابن، شیمپو یا خوشبو کی ہرگز ضرورت پیش نہیں آتی، صرف وضو و غسل کے حوالے سے اسلام کے بتائے ہوئے فرائض و سنتوں پر عمل پیرا ہوکر پاکیزہ رہا جا سکتا ہے۔ صفائی ستھرائی انسان کو بہت سی بیماریوں سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ اگر ہم اپنے جسم، لباس، بستر، کمرے، برتنوں، فرنیچر اور ساز و سامان کو خوب صاف بھی رکھیں، لیکن اردگرد کا ماحول صاف نہ ہو تو ہماری صفائی کسی کام کی نہیں۔

آلودہ اور تعفن زدہ ماحول کئی اقسام کے خطرناک جراثیم کو جنم دیتا ہے، جو متعدد انتہائی خطرناک و جان لیوا بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ کئی موذی وبائیں پھوٹ سکتی ہیں اور پھر سب تدبیریں الٹی ہو سکتی ہیں۔ سارے انتظامات دھرے رہ سکتے ہیں اور ہزار ہا احتیاطی تدابیر کے باوجود قیمتی انسانی جانوں کے ساتھ نباتات و حیوانات کی بقا کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ غرض صفائی کے لاکھوں فائدے ہیں اور گندگی کے کروڑوں نقصانات۔

آج ہمارے معاشرے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ صفائی کی روح پہچان کر صفائی کی جائے۔ یہ پہچان اور اس کی تعلیم ماں کی آغوش سے شروع ہو جاتی ہے۔ اگر بچے کو شروع سے ہی تعلیم دی جائے اور بتایا جائے کہ گندگی کرنا یا گندگی پھیلانا کس حد تک نقصان دہ ہے تو بچے کے شعور اور لا شعور  یہ بات مان لیں گے کہ ہمیشہ صفائی پسند رہنا ہے۔ دل کی پاکیزگی اور جسم کی پاکیزگی کے بعد اگلہ مرحلہ ہے گلی، محلے اور کوچوں کی صفائی کا، جس کے بعد پورا ملک صاف ہو گا۔

قراآن کریم، احادیثِ نبویﷺ میں صفائی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ ہر مسلمان صفائی کی اہمیت سے باخبر ہے لیکن عمل کی کمی ہے۔ اگر ہمارا معاشرہ صاف ہو گا تو بیماریاں کم سے کم جنم لیں گی۔ ظاہری گندگی، اندرونی گندگی کا باعث بنتی ہے اور اس لئے ہمیں چاہیئے کہ ہم اندرونی اور بیرونی صفائی کو اہیمت دیتے ہوئے خود کو صاف رکھیں اور اپنے معاشرے کو صاف رکھنے میں اہم کردار ادا کریں۔

صفائی برقرار رکھنا صرف حکومت یا انتظامی اداروں کی ذمہ داری نہیں بلکہ بحیثیت شہری یہ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم اپنے گھر، گلی، کُوچے اور محلے کو صاف ستھرا رکھیں۔ کوڑا کرکٹ نالیوں میں پھینکنے کی بجائے مقرر کردہ کوڑا دانوں میں ڈالیں۔ گھر کی چھت پر یا گلی میں پانی کھڑا نہ ہونے دیں۔ پانی کی ٹینکی اور دیگر برتن ڈھانپ کر رکھیں۔ ہاتھ دھونے سمیت صفائی کی جملہ عادات کو اپنا معمول بنائیں تو ہم خود بھی کئی بیماریوں سے بچ سکتے ہیں اور دوسروں کو بھی محفوظ رکھ سکتے ہیں۔