فیض آباد دھرنا کمیشن نے خفیہ اداروں کو ریگولیٹ کرنے کیلئے قانون سازی کی تجویز دے دی

image

فیض آباد دھرنا کمیشن نے خفیہ اداروں کو ریگولیٹ کرنے کیلئے قانون سازی کی تجویز دے دی، دنیا میں چند جمہوری ممالک نے اپنی ایجنسیوں کو بغیر کسی قانونی فریم ورک کے کام کیلئے چھوڑ دیا ہے، کینیڈا واحد ملک ہے جہاں کوئی غیر ملکی خفیہ ایجنسی نہیں۔

اسلام آباد: (قومی ڈیسک) فیض آباد دھرنا کمیشن نے حکومت سے کہا ہے کہ تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ایک قانونی نظام میں لایا جائے، تاکہ ان کے کام کو منظم کیا جا سکے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔ ماضی میں آئی ایس آئی اور آئی بی سمیت ملک کی تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کام کو ریگولیٹ کرنے کیلئے قانون بنانے کی کچھ کوششیں اور متعدد مرتبہ مطالبات سامنے آتے رہے ہیں، لیکن ایسا کبھی ہوا نہیں۔ اب فیض آباد دھرنا کمیشن پھر وہی تجویز پیش کر رہا ہے۔ کمیشن نے یہ مشاہدہ پیش کیا ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کام کو ریگولیٹ کرنے کیلئے کوئی قانون موجود نہیں، اور ساتھ ہی اس ضمن میں ضروری قانون سازی اور شرائط کار (ایس او پیز ) بنانے کی سفارش کی ہے۔

پاکستان اُن چند جمہوری ممالک میں شامل ہے، جہاں انٹیلی جنس ایجنسیاں بلا روک ٹوک کام کرتی ہیں کیونکہ ان پر لگام ڈالنے یا ان کے اقدامات پر سوال پوچھنے یا کارکردگی پر سوال اٹھانے والا کوئی قانون موجود نہیں۔ ملک کی سرکردہ انٹیلی جنس ایجنسیاں (آئی ایس آئی اور آئی بی) پاکستان کے قیام کے فوراً بعد ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے قائم کی گئی تھیں، لیکن ان کے کام کاج کی نگرانی کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔ فی الوقت یہ ایجنسیاں ایسے ایس او پیز کے تحت کام کرتی ہیں جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ ماضی میں مختلف اوقات پر انٹیلی جنس ایجنسیوں کو قانون سازی کے ذریعے ریگولیٹ کرنے کا معاملہ اٹھایا جاچکا ہے اور اس معاملے پر بحث بھی ہوئی ہے لیکن کوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔

پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں اس وقت کے ڈی جی انٹیلی جنس بیورو ڈاکٹر شعیب سڈل نے قانون سازی کے حوالے سے اقدامات کیے تھے۔ حتیٰ کہ انہوں نے ایک قانون کا مسودہ تیار کرکے حکومت کو پیش کیا تھا۔ یہ مسودہ انہوں نے مختلف ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کیلئے کی گئی قانون سازی کا جائزہ لینے کے بعد تیار کیا تھا۔ شعیب سڈل نے رضاکارانہ طور پر اس بات پر آمادگی ظاہر کی تھی کہ ایک قانون کے ذریعے انٹیلی جنس بیورو کی پارلیمانی نگرانی ہونا چاہئے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں چند جمہوری ممالک نے اپنی ایجنسیوں کو بغیر کسی قانونی فریم ورک کے کام کیلئے چھوڑ دیا ہے۔ حتیٰ کہ جن ممالک میں پہلے آمریت تھی وہاں بھی انٹیلی جنس ایجنسیوں کیلئے اصلاحات کی گئی ہیں۔